ٓآداب ذکر
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔اَمَّابَعْدُ
فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّےْطٰنِ الرَّجِےٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍْمِ o بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِےْمِ o
(ےَااَیُّھَا الَّذِےْنَ آمَنُوااذْکُرُواللّٰہَ ذِکْرًاکَثِےْرًاo ) (الاحزاب:۴۱)
وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی (وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَےْہِ تَبْتِےْلاً o) (المزمل:۸)
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَےِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ سَےِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ
انسان کی حقیقت
میرے معزز مسلمان بزرگو، عزیز بھا ئیواور امت مسلمہ کی مقدس ماؤں اور بہنوں !
اللہ رب العزت نے انسان کو تمام مخلوقات پر فوقیت بخشی ہے ،عزت بخشی ہے، احترا م بخشا ہے ۔اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔اب انسان کو صحیح طور پر جاننے کے لئے ضروری ہے کہ اس بات کا علم حاصل کیا جائے کہ انسان کس چیز کا نا م ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ماہیت کیا ہے؟کیا صرف ہڈیو ں اور گوشت کے مجموعے کا نا م انسان ہے ؟کیادو آنکھوں اور دو ہاتھوں کی حامل شخصیت کا نا م انسان ہے؟ نہیں بالکل نہیں انسان کے ظا ہری ڈھا نچے پر انسا ن کی تعریف مکمل طور پر صادق نہیں آتی ۔
اگر اس ظا ہری ڈھا نچے کو انسا ن کہا جا ئے تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس کے مر جانے کے بعد اس ظاہری جسم کی ملکیت اس کے اختیار سے کیو ں نکل جا تی ہے؟ اسے مرنے کے بعد انسان کیو ں نہیں کہا جا تا؟ حالانکہ ظاہری ڈھانچہ تو اس وقت بھی موجود ہوتا ہے لیکن اس وقت یہ کہا جا تا ہے کہ یہ میت ہے ، لا ش ہے۔ اس کے سارے اختیا رات اس سے چھن جاتے ہیں، اس کی جائیداد تقسیم ہو جاتی ہے ،یہا ں تک کہ وہ خدام جو ساری زندگی اس کے اشارے کے تا بع ہو تے تھے ، وہ بھی اب دوسرو ں کے اشارے کے انتظار میں ہوتے ہیں ۔
مرنے کے بعد پیش آنے والے ان معاملات سے یہ با ت اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ صرف گوشت پوست کے مجموعے کا نا م انسان نہیں ہے، کو ئی اور چیز بھی ہے جسے حقیقت میں انسان کہا جاتا ہے اور وہ اس کے اندر کا انسان ہے ۔یا یو ں کہئے کہ انسان کی ایک ظاہری دنیا ہے اور ایک با طنی دنیا ہے ۔ان دونو ں کے مجموعے سے مل کر مکمل انسان تشکیل پاتاہے ۔ ان دونوں میں سے زیا دہ اہمیت کا حامل اندر کا انسان ہے اس لئے کہ جب اندر کا انسان مردہ ہو جا ئے تو لوگ اس ظاہری انسان (ظاہری جسم)کو بھی مردہ قرار دے دیتے ہیں اور اسے قبرستان پہنچا دیتے ہیں ۔
انسانی بقا کا محور
جس طرح انسان کے ما دی جسم کے زندہ رہنے کے لئے غذا ضروری ہے کہ اگراسے غذا ملتی رہے گی تو اس میں قوت با قی رہے گی ،یہ ما حول میں پھیلنے والے جراثیم کا مقا بلہ کر تا رہے گا،اس کے اندردفاع کی قوت موجود رہے گی۔ فضاؤں میں بکھرے ہوئے جرا ثیم اس پر زیا دہ اثر انداز نہیں ہو ں گے، اس لئے کہ اسے موقع بہ موقع غذا مل رہی ہے ، وہ غذا اس کے جسم کو لگ رہی ہے، اور اسے قوت و توانائی حا صل ہو رہی ہے۔ مختلف قسم کے وبائی امراض کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے اس کے پا س قوتِ دفا ع مو جو د ہوتی ہے۔وہ بیما ریو ں کو جلدی قبول نہیں کر تا، اگر کو ئی بیما ری حملہ آور ہو جا ئے تو اس کی اندرونی دفاعی قوت اس بیماری کا مقابلہ کرتی ہے ۔
اسی طرح میرے عزیزو! ایک با طن کی زندگی ہے، با طن کا جہاں ہے، روح اور دل ہے،اس کی بھی غذا ہے، اس کو بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔جب اس باطنی زندگی کو اس کی غذا ملتی رہے گی ،توا نا ئی ملتی رہے گی تو اس با طنی زندگی اور روحا نی زندگی کے اندر قوت دفا ع مو جو د رہے گی۔ پھر سوسائٹی اگراسے غلط رخ پر لے جانا چاہے گی تو اندر کا دفا عی نظام اسے محفوظ رکھے گا۔ اس کے دوست اسے غلط رخ پر لے جا نا چاہیں گے تو باطنی توا نا ئی اس کے کا م آجا ئے گی۔ راہ چلتے اگراس کی آنکھیں بھٹکنے لگیں گی تو اندر کی توا نا ئی اس کی پلکو ں کو جھکا دے گی۔ محفل کے اندر غیبت ہو رہی ہو گی تو اندرونی تو ا نا ئی اس کی زبا ن کوروک لے گی۔ غلط با ت سننے کا ما حول ہو گا تو اندر کی توانا ئی اس کے کا نو ں کو محفو ظ کر دے گی۔ اندھیرے میں ہو گا اور گناہ پر پوری قدرت رکھتا ہوگا لیکن اس کے اندر کی توانائی اسے یہاں بھی محفوظ رکھے گی ۔
اللہ کا ذکر ،روحانی غذا
اس روحانی زندگی کی ایک غذا اللہ رب العزت نے اپنی یا د کو بنا یا ہے، اللہ کو یا دکرنا ،اللہ کا ذکر کرنا ،یہ با طنی زندگی کی غذا ہے، جب اللہ رب العزت کسی کو یہ غذا نصیب فر ما دیں تو پھر آدمی کا با طن محفوظ ،مضبوط اور پا ئیدار بنتا ہے ۔
تمام انسا ن عام طور پر دو طرح کی زندگی گزارتے ہیں۔ پہلی گناہوں سے پاک زندگی اور دوسری گنا ہو ں میں ڈوبی ہوئی زندگی۔ دونوں طرز کی زندگی گزارنے والے ایک ہی سوسائٹی کے اندر زندگی بسر کر رہے ہیں،ایک ہی با زار میں تجارت کر رہے ہیں، ایک ہی انداز میں ما ل کما رہے ہیں لیکن ایک گنا ہو ں کی آلودگیوں سے محفوظ ہے اور دوسرا گنا ہو ں میں پڑا ہوا ہے ۔
اندرونی قوت کی کمزوری
میرے عزیزو! اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ ایک کو اللہ نے اپنی یا د عطا فرمائی ہے اور دوسرا اس سے محروم ہے۔ بسا اوقات ہمیں بھی اس بات کی فکر ہو تی ہے ،احساس ہو تا ہے کہ استقا مت نہیں مل رہی۔ مجلس میں شریک ہو تے ہیں تو طبیعت بڑی مچلتی ہے، سوچ پیدا ہو تی ہے کہ اب اللہ کی فرما نبرداری والی زندگی گزاریں گے ، اللہ کی نا فرمانی نہیں کریں گے لیکن جیسے ہی با ہر کی زندگی میں پہنچتے ہیں تو سارے جذبات ماند پڑ جاتے ہیں،ہمتیں پست ہو نے لگتیں ہیں ،ارادے کمزور پڑ جاتے ہیں،حالات کا مقابلہ کر نے سے گھبرانے لگتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اندرونی دفاعی قوت موجو د نہیں ہے ۔چونکہ باطنی زندگی کی غذا حاصل نہیں کی اس لئے اندر کی دفاعی طاقت بالکل کمزور ہے ۔ جب تک آدمی اس غذا کو استعما ل کر تا رہتا ہے اس کے اندر یہ توانائی موجود رہتی ہے اور روحانی زندگی کی ایک قوی غذا اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ۔
ذکر کی عادت بنائیں
اللہ رب العزت نے ایما ن والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے :
( ےَااَیُّھَاالَّذِےْنَ آمَنُوْااذْکُرُو اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِےْرًا ) (الاحزاب:۴۱)
اے ایمان والو! تم اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔
انتہائی زبردست اور پیا راجملہ ارشاد فرما یاہے۔اس جملے کو سننے کے بعد کو ئی تاجر یہ نہیں کہہ سکتا کہ’’میں ذکر نہیں کرسکتا، ذکر کرنے والے تو نیک لوگ ہو تے ہیں ‘‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کرنے کے لئے نیکی کی شرط نہیں لگا ئی ۔ کوئی مرد یہ نہیں کہہ سکتا کہ عورت کے پا س وقت کی فرا غت ہو تی ہے اس لئے وہ ذکر کرسکتی ہے ،میں تو بہت مصروف آدمی ہوں،میرے پاس بالکل بھی وقت نہیں ہے اس لئے میں ذکر نہیں کر سکتا۔اللہ رب العزت نے فر ما یا :
’’ارے! اگر تم صاحب ایما ن ہو تو میرا حکم تما م ایما ن والو ں کے لئے ہے۔ چا ہے تم تا جر ہو یامزدور ،چا ہے تم جوان ہویابوڑھے ،چا ہے تم امیر ہو یا غریب ،چا ہے تمہارے پا س دنیا زیا دہ ہویا کم ،ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا کرو۔ ‘‘
عقل والے کون ؟
اللہ تعالیٰ کے ہاں عقلمند اور صاحبِ بصیرت کون ہے؟ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
( اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًاوَّقُعُوْدًاوَّ عَلیٰ جُنُوْ بِھِمْ ) (آل عمران:۱۹۱)
وہ لوگ جواللہ تعالی کو یاد کرتے ہیں کھڑے بھی ،بیٹھے بھی ،لیٹے بھی ۔
اللہ رب العزت کے ہا ں عقلمندوں کا معیا ریہ مقرر کیا گیا ہے کہ عقل مند وہ ہیں جو اپنے محسن حقیقی کو کبھی بھولا نہیں کرتے ۔کھڑے ہوں تب بھی اسی کو یاد کرتے ہیں ، بیٹھے ہوں تب بھی اسی کو یاد کرتے ہیں، کروٹو ں پر بھی اسی کو یا د کرتے ہیں ،کسی حال میں بھی اپنے اللہ کو بھولتے نہیں ہیں ۔
آج دنیا والو ں کے ہا ں توعقلمندی کے پیمانے ہی بدل گئے ہیں، ان کے ہاں انسا نیت کو پرکھنے کے معیا رہی بدل گئے ہیں کہ جس کے پا س دولت زیا دہ ،بینک بیلنس خوب،بڑی گا ڑی اور بڑی کو ٹھی ہو ،وہ بڑا عقل مند سمجھا جاتا ہے جبکہ اللہ رب العزت کے فرمان کے مطابق عقل والے تووہ ہیں جو کسی حال ، کسی وقت اورکسی بھی جگہ میں اپنے پیدا کرنے والے کو نہیں بھولتے ۔
اللہ کسے یاد کرتا ہے ؟
میرے دوستو!
ذکر انمول دولت ہے اس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے :
( فَاذْکُرُوْ نِیْ اَذْکُرْکُمْ) (البقرۃ :۱۵۲)
پس( ان نعمتوں پر) تم مجھے یاد رکھومیں تم کو(عنایت سے )یاد رکھوں گا۔
اگرذکر کی یہی ایک فضیلت ہو تی توبھی ذکر کی اہمیت کے لئے کسی اور فضیلت کی ضرورت نہیں تھی کہ اللہ رب العزت فرمارہے ہیں تم مجھے یا د کرو گے میں تمہیں یا د کروں گا ۔حضرت ابو عثما ن رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مر تبہ فر ما یا کہ جب اللہ تعالی مجھے یا د کرتے ہیں تو مجھے پتہ چل جا تا ہے۔ کسی نے پو چھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے ؟ انہوں نے فرما یا کہ
’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وعدہ فرما یا ہے کہ جب تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد کروں گا اس لئے میں جب بھی اللہ کو یا د کر تا ہو ں تو یقین کر لیتا ہوں کہ اللہ بھی مجھے یاد کر رہاہے ۔‘‘
اللہ کو یاد کرنے کے فائدے
حضور اکرم ا کا ارشاد ہے :
’’ تَعَرَّفْ اِلٰی اللّٰہِ فِی الرَّخَاءِ ےَعْرِفْکَ فِی الشِّدَّۃِ ‘‘
(ترمذی ،ابواب صفۃ القیامۃ،ج۲،ص۷۸)
تم خوشحالی اور آسانی میں اللہ کو یادکرو،وہ تمہیںآزمائش کی گھڑی میں یاد کرے گا۔
اگرہم خوشحا لی میں اللہ کو یاد کریں گے تو اللہ ہمیں تنگ دستی میں بھی نہیں بھولے گا ،اگر ہم عافیت میں اللہ کو یا د کریں گے تو اللہ مرض کے اندر بھی ہمیں فرا موش نہیں کرے گا اور قسم خدا کی اگر ہم دنیا کے اندر اللہ کو یا د کریں گے تو اللہ آخرت میں ہمیں یاد رکھے گا۔
عرش کا سایہ کسے ملے گا؟
حدیث میںآتا ہے کہ آپ انے ارشاد فرما یا:
’’ سَبْعَۃٌ ےُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ ےَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہٗ ‘‘
سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کا سایہ عطافرمائیں گے ۔
ان میں سے ایک وہ آدمی بھی ہو گاجس نے
’’ رَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیاً فَفَا ضَتْ عَیْنَا ہُ ‘‘
(مشکوۃ ،باب المساجدوموا ضع الصلوۃ،ص۶۸)
خلوت میں اللہ کو یا د کیا اور اللہ کی محبت میں اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
جوخلوت میں اتنی چاہت اور لگن کے ساتھ اللہ کو یا د کر رہا ہوکہ اللہ کی محبت اور عظمت کی وجہ سے اس کی آنکھو ں سے آنسو بہہ رہے ہوں۔ اللہ کے ہا ں اس ذکر اور ان آنسوؤوں کی اتنی قیمت ہے کہ کل قیا مت میں جب کہیں سایہ نہیں ہو گا تواللہ تعالیٰ اسے اپنے عرش کا سایہ نصیب کریں گے۔
میرے عزیزو! یہ غذائیت اور توانائی ہے۔ اگر کو ئی آدمی اس غذاکو صحیح طریقے سے حاصل کر لے تو اس کے اندر قوت اور طاقت پیدا ہو تی ہے، پھر وہ ایما ن والی زندگی گزار سکتا ہے ،پھر وہ سوسائٹی کے غلط اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔
آداب کی رعایت ضروری ہے
میرے عزیزو !ذکر کے بھی کچھ آداب ہیں ،اگر ان آداب کی رعایت رکھی جائے گی تو یہ ذکر غذائیت کا کام دے گا،اس سے توانا ئی حاصل ہوگی اور اگر ان آداب کی رعایت نہ رکھی گئی تب بھی اجر توملے گالیکن یہ غذائیت کا کام نہیں دے گا ،اس سے توانائی حاصل نہیں ہوگی ۔
ذکر کی مقدار مقررکریں
ذکر کاپہلا ادب یہ ہے کہ ذکر کچھ خاص مقدار میں ہو، کم ازکم اتنا تو ہو کہ اس سے کچھ توانا ئی حاصل ہو جا ئے۔ جیسے انسان کے ما دی جسم کے لئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور شدید بھوک کی حالت میں کوئی اسے ایک لقمہ پکڑا دے تو وہ کیا کہے گا؟ یہی کہ ارے میاں! اتنا تو دو کہ پیٹ بھر جا ئے ،کچھ سیرابی حاصل ہو جا ئے۔شدید پیاس کی حالت میں کوئی اسے ایک گھونٹ پانی دے دے تو وہ کیا کہے گا؟یہی کہ ارے میاں! اتنا تو پلادو کہ پیا س کی شدت ختم ہوجائے،کچھ تشنگی تومٹ جائے۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے اس ما دی جسم کے لئے غذا کی کچھ خاص مقدار چاہئے ایسے ہی باطنی زندگی کے لئے بھی اللہ کے ذکر کی کچھ نہ کچھ خاص مقدار ہونی چاہئے لیکن ظا ہر ہے اس مقدار کے مقرر کرنے کے لئے آپ کسی اللہ والے سے مشورہ بھی کرتے ہیں ، جیسے آپ کسی طبیب کے پا س کو ئی اچھا سا خمیرہ بنوانے کے لئے تشریف لے جاتے ہیں تو اس سے اس بات کا مشورہ بھی کر لیتے ہیں کہ ایک دن میں اس کی کتنی مقدار استعمال کی جائے ؟ حالا نکہ وہ خمیرہ غذائیت کے لئے ہوتاہے ،طا قت کے لئے ہوتاہے لیکن آپ ایسا نہیں کرتے کہ سارا خمیرہ ایک ہی دن میں کھالیں اور طبیب کے مشورے پر عمل ہی نہ کریں ،اس لئے کہ اگر ایسا کریں گے تو کیا ہو گا؟ دما غ کے اندرخشکی ہو جا ئے گی۔ طبیب ایک مقدار بتا تا ہے کہ میا ں روزانہ اتنی مقدار استعمال کرو یہی تمہا ری صحت کا تقا ضا یہ ہے اور یہی تمہارے لئے منا سب ہے ۔
مقدارِ ذکر مشورے سے مقرر کریں
اسی طرح اللہ رب العزت کسی کو کو ئی مربی نصیب فرما دیں ،روحانی زندگی کے لئے کوئی معالج عطا فرمادیں اور وہ اس سے پوچھے کہ آ پ میرے لئے ذکر کی کتنی مقدار مناسب سمجھتے ہیں؟ تووہ مربی اسے اس کے حال کے مناسب ذکر کی مقدارتجویز کردے کہ تمہاری روحانی صحت کا تقا ضا یہ ہے کہ تم روزانہ اتنا ذکر کیا کرو تو پھر اسے چاہئے کہ روزانہ اتنی ہی مقدار میں ذکر کیا کرے جو اس کے لئے اس کے مربی اور معالج نے تجویز کی ہے سوائے اس کے کہ وہ سفر میں ہو یا بیما ر ہو تو پھر اگر مقدار میں کمی بھی ہو جائے تو کو ئی با ت نہیں۔ جیسے سفر میں آدمی بسا اوقات صرف چا ئے پر گزارا کرلیتا ہے ، صرف بوتل پر گزارا کر لیتا ہے ،کھا نا نہیں کھا تا ،یا جب بیما ر ہوتا ہے توبھی اس کی غذا کے اندر کمی آجاتی ہے لیکن عام حالت کے اندر اپنی غذا میں کوئی کمی نہیں کرتابلکہ پوری پوری غذا استعما ل کرتا ہے۔ اسی طرح میرے دوستو !اگر سفر یابیماری کی وجہ سے ذکر کی مقررہ مقدار میں کوئی کمی آجائے تو کوئی بات نہیں لیکن عام حالات میں اس مقدار میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے ۔
ذکر کی کیفیت کیا ہونی چاہئے؟
دوسراادب یہ ہے کہ ذکر کیفیت کے ساتھ کیا جائے ۔مطلب یہ ہے کہ ذکر کرتے وقت ایسی کیفیت بنائی جائے جس سے دھیان پیدا ہو۔ جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ پانی ہو تو اتنا ہو کہ سیراب ہوجائیں اور ہو بھی ٹھنڈا ،یا چاہتے ہیں کہ کباب ہوں اور اتنی مقدار میں ہوں کہ پیٹ بھر جائے اور ہوں بھی گرم گرم یعنی دونوں چیزوں کی رعایت رکھتے ہیں۔ مقدار کی بھی اور کیفیت کی بھی کہ اتنی مقدارہو جس سے کچھ کام بن جائے اور ایسی حالت میں ہو کہ اچھا بھی لگے ۔
اسی طرح میرے دوستو !ذکر کی بھی مقدار مقررہونی چاہئے اور ساتھ ساتھ ذکر کی کیفیت بھی ہونی چاہئے۔ اب کیفیت کیا ہونی چاہئے؟ تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر جہاں بھی ذکر کی تلقین فرمائی تو دو الفاظ میں سے ایک لفظ ضرور استعمال فرمایاہے۔پہلا لفظ جو استعمال فرمایا وہ ’’اللہ‘‘ کا لفظ ہے کہ اے ایمان والو!اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا کرو۔ ارشاد باری ہے :
( ےَااَیُّھَا الَّذِےْنَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِےْرًا ) (الاحزاب:۴۱)
اے ایمان والو !تم اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔
دوسرا لفظ جو استعمال فرمایا وہ ’’رب ‘‘کا لفظ ہے کہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرو۔ارشاد ربانی ہے :
( وَاذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَےْہِ تَبْتِےْلاً ) (المزمل:۸)
اپنے رب کے نام کا ذکر کرتے رہو اور سب سے قطع کر کے اسی کی طرف متوجہ رہو ۔
تو دو لفظ استعمال فرمائے۔ ’’اللہ‘‘ اور’’ رب‘‘یہ دونوں لفظ ہمیں کچھ سمجھا رہے ہیں ،کچھ بتا رہے ہیں کہ اللہ وہ ذات ہے جو تمام کمالات اور خوبیوں سے آراستہ ہے ، ساری قدرتوں کی مالک ہے ، تمام چیزوں کی خالق ہے ۔
تمام خوبیوں کا مالک کون؟
کائنات میں جو کچھ ہے،تھا اور جو کچھ آئے گااور دنیا میں انجام پانے والے سارے اعمال،تمام مخلوقات اور ان کے تمام امور کا مالک اللہ ہی ہے۔اللہ کو پہچاننے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ مالکِ کل اور مختارِ کل ہے ۔ساری دنیا کا اختیاراسی کے ہاتھ میں ہے۔ قرآن کریم میں ان تمام امور کو اللہ نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے:
( اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ ) (الزمر:۶۲)
اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے ہر چیز کا۔
اللہ کون ہے ؟اللہ وہ ذات ہے جس نے ساری چیزوں کو پیدا فرمایا۔
( اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ) (الانعام:۹۵)
بے شک اللہ تعالی پھاڑنے والا ہے دانوں کو اور گٹھلیوں کو۔
اللہ کون ہے ؟اللہ وہ ہے جو اپنی قدرت سے گٹھلی توڑ تا ہے ، دانے کو پھاڑتا ہے اور اس کے اندر سے کونپل نکالتا ہے۔
( اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّصَوَّرَ کُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّےِّبَاتِ ) (المومن:۶۴)
اللہ ہی ہے جس نے زمین کو (مخلوق کی) قرار گاہ بنایا اور آسمان کومثل چھت کے بنایا اور تمہارا نقشہ بنایا،سو عمدہ نقشہ بنایا اور تم کو عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کودیں۔
ا للہ کون ہے؟اللہ وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے ٹھہر نے کے لئے بنایا ، جس نے آسمانوں کو تمہارے لئے چھت بنایا ،جس نے تمہاری خوبصورت شکلیں بنائیں،جس نے تمہیں پاکیزہ روزی عطافرمائی۔
( وَےَعْلَمُ مَاتُسِرُّوْنَ ) (التغابن:۴)
اور سب چیزوں کو جانتا ہے جو تم پوشیدہ رکھتے ہو۔
اللہ کون ہے ؟ اللہ وہ ہے جو وہ تمام چیزیں اور اعمال جانتا ہے جنہیں تم خلوتوں میں ،اند ھیروں میں چھپ کر کرتے ہو ۔
( اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ ) (النور:۳۰)
بے شک اللہ تعالی کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں ۔
اللہ کو ن ہے؟ اللہ وہ ہے جو ان تمام سوچوں اور خیالات سے باخبر ہے جنہیں تم اپنے دل ودما غ کے اندربنا تے ہو ،تخلیق کرتے ہو ۔
( وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْ بِکُمْ ) (الاحزاب:۵۱)
اور خدا تعالیٰ کو تم لوگوں کے دلوں کی سب باتیں معلوم ہیں۔
اللہ کو ن ہے ؟اللہ وہ ہے جو تمہا رے دلو ں میںآنے والے خیا لا ت بھی جانتا ہے۔
( اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ) (الزمر:۵۳)
بالیقین اللہ تعالی تمام (گذشتہ)گناہوں کو معاف کردے گا۔
اللہ کو ن ہے؟اللہ وہ ہے جو سارے گنا ہو ں کو معا ف کر نے وا لا ہے ۔
( وَاللّٰہُ یَدْعُوْا اِلیٰ دَارِالسَّلَا مِ ) (یونس:۲۵)
اور اللہ تعالی تم کودار بقاء کی طرف بلاتا ہے۔
اللہ کو ن ہے؟اللہ وہ ہے جو تمہیں دارالسلا م یعنی جنت کی طرف بلا تا ہے ۔
( وَاللّٰہُ یَدْعُوْا اِلٰی الْجَنَّۃِ وَا لْمَغْفِرَۃِ بِاِ ذْنِہٖ ) (البقرۃ:۲۲۱)
اور اللہ تعالی اپنے حکم سیجنت اور مغفرت کی دعوت دیتے ہیں ۔
اللہ کو ن ہے ؟اللہ وہ ہے جو تمہیں جنت اور اپنی مغفرت کی طرف بلا تا ہے۔
(اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِن السَّمَاءِ مَاءً ) (الزمر:۲۱)
کیا تو نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ اللہ تعالی نے آسمان سے پانی برسایا۔
اللہ کو ن ہے ؟اللہ وہ ہے جو آسما ن سے بارش برسا تا ہے۔
( اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ ) (المائدۃ:۱)
بے شک اللہ تعالیٰ جو چاہیں حکم کریں ۔
اللہ کو ن ہے؟ اللہ وہ ذات ہے جو اپنی مرضی سے فیصلہ کر تی ہے ۔
( وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لَامُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ ) ( الرعد:۴۱)
اور اللہ جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے اس کے حکم کو کوئی ہٹانے والا نہیں ۔
اللہ کو ن ہے ؟اللہ وہ ہے کہ جب وہ فیصلہ کر لیتا ہے تودنیا کی کو ئی طا قت اس کے فیصلہ کو رد نہیں کر سکتی ۔
( اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ یُزْجِیْ سَحَا باً ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہٗ ثُمَّ یَجْعَلُہٗ رُکَاْماً فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ ) (النور:۴۳)
کیا تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالی (ایک) بادل کو(دوسرے بادل کی طرف) چلتا کرتا ہے (اور) پھر اس بادل (کے مجموعہ) کو باہم ملا دیتا ہے پھر اس کو تہہ بہ تہہ کرتا ہے پھر تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس (بادل) کے بیچ میں سے نکلتی ہے۔
اللہ کو ن ہے؟اللہ وہ ہے جو ہوا ؤوں کے ذریعے با دلو ں کو چلا تا ہے، پھر انہیں بکھیر دیتا ہے ،پھر انہیں تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے، پھر ان میں سے رحمت کی با رشیں برساتا ہے۔
( اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) (الزمر:۵۳)
واقعی وہ بڑا بخشنے والا اور بڑارحم کرنے والا ہے ۔
اللہ کون ہے ؟اللہ وہ ہے جو بخشتا بھی ہے اور رحم بھی کرتاہے۔
( وَہُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ ) (النحل:۱۴)
اور وہ ایسا ہے کہ اس نے دریا کو( بھی) مسخر بنادیا ہے ۔
اللہ کون ہے ؟اللہ وہ ہے جس نے تمہا رے لئے سمندر بھی مسخر کر دیئے کہ تم عا فیت کے ساتھ اس پر کشتیا ں چلا تے ہو اور اللہ کا رزق تلا ش کر تے ہو۔
کیفیت سے کیا مراد ہے؟
ان تمام آیات میں اللہ تعالیٰ ایک بات سمجھانا چاہ ر ہے ہیں کہ
( ےَااَیُّھَا الَّذِےْنَ آمَنُوْااذْکُرُواللّٰہَ ذِکْرًاکَثِےْرًا ) (الاحزاب:۴۱)
اے ایمان والو !تم اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو۔
اللہ کا ذکر کرو اور کیفیت کے ساتھ کرو۔کیفیت کا مطلب یہ ہے کہ عظمت کے ساتھ اللہ کا نا م لو ،جیسے ہم کباب گرم چا ہتے ہیں ،پا نی میٹھا اورٹھنڈا چا ہتے ہیں، ایسے ہی جب اللہ کا ذکر کریں تو اللہ کی ان عظمتو ں کا لحاظ کر کے کریں اور یہ سوچیں کہ میں کسے یا د کر رہا ہو ں؟ میں کسے آواز دے رہا ہو ں؟وہ جو میرے دل کی آہو ں کو بھی سن رہا ہے، جو میری فریا دوں کو بھی سن رہا ہے، جو میری ضرورتو ں سے بھی واقف ہے اور وہ ایسا ہے کہ کا ئنا ت کا ہر ذرہ اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، کا ئنا ت کی ہر چیز اس کے ماتحت ہے ،وہ نفع دینے پر آئے تو دنیا کی کو ئی طا قت نقصان نہیں پہنچا سکتی اور اگر وہ آزما ئشوں میں ڈالنا چا ہے تو دنیا کی کو ئی طا قت ان آزما ئشوں سے بچا نہیں سکتی۔ اس طرح جب اللہ کی عظمت کے ساتھ اللہ کو پکا ریں گے تو پھر یہ ذکر بھی اثر کرے گا ۔
اللہ سب سے بڑا محسن
میرے عزیزو! قرآن کریم میں ذکر کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک لفظ تو ’’اللہ ‘‘کا استعمال کیا گیا ہے اور دوسرا لفظ ’’رب‘‘کا استعمال کیاگیا ہے ۔ارشاد ربانی ہے:
(وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَےْہِ تَبْتِےْلاً ) (المزمل:۸)
اور اپنے رب کا ذکر یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کر کے اسی کی طرف متوجہ رہو ۔
اپنے رب کے نا م کا ذکر کرو۔ پہلے’’ اللہ‘‘ کہا اوراب’’ رب‘‘ کہا ،رب کے اندر بھی ایک اشارہ مل رہا ہے۔ جیسے ما ں با پ اپنے بچے کو پا لتے ہیں تو بچے کے دل کے اندر ما ں با پ کی محبت پیدا ہو تی ہے اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ ماں باپ کے مجھ پر بہت احسانات ہیں توگو یا کہ اللہ بھی یہ فرما رہے ہیں کہ میرا نا م لو میری عظمت کے ساتھ، میری محبت کے ساتھ اس لئے کہ میں تمہارا رب ہوں۔
میرے عزیزو! اگرکو ئی آدمی ذکر کی مقداربھی پو ری کرے اور اس کیفیت (یعنی اللہ کی عظمت اور محبت )کے ساتھ اللہ کا نا م لے تو پھر دیکھئے کہ اس کی زندگی میں کیسی توا نا ئی آتی ہے، کیسی قوت آتی ہے۔ پھر توایسا آدمی بڑے بڑے فتنوں میں بھی ثابت قدم رہتا ہے، بڑے بڑے مصا ئب میں بھی استقا مت کا مظاہرہ کرتاہے، بڑے بڑے اندیشوں میں بھی اللہ کے ذکرکی برکت سے بے خوف ہو جا تا ہے ۔
ہرلمحہ اللہ کاذکر کریں
میرے دوستو!ذکر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنی راہ میں جان دینے کے جذبے سے لڑنے والے مجا ہدین سے ارشاد فرما یا کہ دیکھو میدان جہاد میں خوف والی حالت ہوتی ہے ، ماحول دہشت زدہ کرنے والا ہوتا ہے ،جان خطرے میں ہو تی ہے جس سے تمہاری ثابت قدمی متاثر ہوسکتی ہے اور میدان جہاد سے فرارکا خطرہ بھی ہوتاہے ، اس لئے تم ایسا کیا کرو کہ جب دشمن تمہارے سامنے آجائے تو تم اللہ کا ذکر شروع کردیاکرو۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
( یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْااِذَالَقِیْتُمْ فِءَۃً فَاثْبُتُوْاوَاذْکُرُواللّٰہَ ) (التوبہ:۴۵)
اے ایمان والو!جب تم کو کسی جماعت سے (جہاد میں) مقابلہ کا اتفاق ہوا کرے تو (ان آداب کا لحاظ رکھو۔ ایک یہ کہ )ثابت قدم رہو اور اللہ کا خوب کثرت سے ذکر کرو۔
جب تم تلواریں نیا موں سے با ہر دیکھو، دشمن کی فوج تمہا رے سامنے ہو تو تم اپنے اللہ کو اس کی عظمت کے ساتھ یاد کرو ، سارے خوف کافور ہوجائیں گے ، ساری پریشانیاں کافور ہوجائیں گی، دنیا کی ساری طاقتیں تمہیں مکڑی کا جالا نظر آئیں گی ۔
سب سے زیادہ طاقتور کون؟
جب اللہ کو اس کی عظمت کے ساتھ یاد کریں گیکہ اللہ سب سے بڑا ہے اوردنیا کی جتنی بھی بڑی بڑی طاقتیں ہیں ، جتنی بھی طاقتور چیزیں ہیں،وہ سب چھوٹی ہیں توپھر دنیاوی طاقتوں اور لوگوں سے ڈر نہیں لگے گا۔ آپ اپنے دماغ میںیہ تصور بٹھائیں کہ دنیا میں فلا ں طاقت بہت بڑی ہے اور پھر اللہ کے بارے میں سوچیں کہ اللہ اس سے بھی بڑا ہے اور اللہ صمد (بے نیاز)بھی ہے،جب دینے پر آتا ہے تو بغیر اسباب کے بھی عطا کر دیتا ہے۔وہ اپنی قوت اور طاقت میں یکتا ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس کی شریک نہیں ہے تو آپ اپنے اندر ایک انجانی سی طاقت محسوس کریں گے۔ تواس اللہ کو ایک مقدار کے ساتھ ، ایک کیفیت کے ساتھ یاد کریں ۔ وہ کیفیت یہ ہے کہ دل میں اللہ کی عظمت اور اس کی محبت کو بٹھالیں۔خداکی قسم! اگر یہ دولت نصیب ہوجائے تو پھر مسلمان ہرقسم کے خوف سے محفوظ زندگی گزارسکتا ہے ،جس خوف نے آج ہماری زندگی کو گھیر رکھا ہے ،ایک انجانا سا خوف کہ کل کیا ہوگا؟ میرا کیا بنے گا؟ کاروبار کا کیا ہوگا؟ کل حالات کا کیا ہوگا؟ ارے! اللہ تیرے ساتھ ہے ،اگر اس کی محبت اور عظمت دل میں ہے تو کوئی خوف بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
میرے عزیزو!ہمارا تو یہ حال ہے کہ نماز پڑھتے ہیں تو بھی یادیں غیروں کی ہوتی ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ساری دنیا ہمیں یاد آتی ہے ،نہیں آتا تو صرف اللہ یاد نہیں آتا ، اپنا محسن حقیقی یاد نہیں آتا ۔ ساری دنیا کے ساتھ بات کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت ہے، فرصت ہے اگر نہیں ہے تو ایک اللہ کو یاد کرنے کا ،اس سے باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے، اس سے گفتگو کرنے کی فرصت نہیں ہے ۔
میرے عزیزو! اگر اللہ کو اس کی شان کے ساتھ یاد کریں کہ اللہ باعظمت ذات ہے ،محبوب ذات ہے توپھر یہ ذکر دل پر نقش ہوا کرتاہے پھراس سے تو ا نا ئی حاصل ہواکرتی ہے ۔
ایک خوبصورت مثال
حضرت شاہ ولی اللہرحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کے بارے میں ایک بہت خوبصورت مثا ل دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ جب ذکر اپنی کمیت اور کیفیت کے ساتھ کیا جا ئے تو پھر یہ دل میں ایسا بیٹھتا ہے کہ جیسے دیہا ت میں سروں پر پانی کے مٹکے رکھ کر چلنے والی عورتوں کے سروں پر رکھے ہوئے مٹکے۔ان میں سے بعض عورتیں اپنے سر پر تین تین مٹکے اٹھا ئے ہو ئے ہو تی ہیں۔ چلنے کا راستہ بھی ناہموار ہو تا ہے اور وہ کبھی اوپرچڑھتی ہیں کبھی نیچے اترتی ہیں، سہیلیوں سے با تیں اور ہنسی مزاح بھی چل رہا ہو تا ہے لیکن ان کے دل میں ایک با ت بیٹھی ہو ئی ہو تی ہے کہ ہمارے سر وں پر مٹکے ہیں اور ان میں پانی ہے۔یہ خیال ان کے ذہنوں سے کسی وقت بھی نہیں چھٹتااور وہ انتہائی احتیاط سے ان مٹکوں کو گھر تک پہنچا تی ہیں۔
ذکر کی حقیقت
میرے دوستو! جب اس کیفیت کے ساتھ اللہ کا ذکر کیا جا تا ہے تو وہ دل میں ایسا بیٹھتا ہے کہ پھر چاہے یہ شخص بیوی بچوں کے ساتھ ہو، کا روبا ر میں ہو، معاملات کر رہا ہو یا دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہو،ہر حال میں ایک خیال اس کے دل ودماغ کے اندر ہر وقت موجود رہتا ہے کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر ایسا شخص اولادکے ساتھ زیا دتی نہیں کرتا، بیوی کے سا تھ زیادتی نہیں کرتا۔اگربیوی کے دل کے اندر یہی کیفیت آجا ئے تو وہ اپنے میاں کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گی۔ ساس کے دل میں آجائے تو وہ اپنی بہو پر ظلم نہیں کرے گی ۔بہو کے دل میں آجائے تو وہ اپنی ساس کو نہیں ستا ئے گی، اگر مزدور کے دل میں آجائے تو وہ اپنے مالک کے ما ل میں خیا نت نہیں کر ے گا۔اگر ما لک کے دل میں آجائے تو وہ اپنے ملازم اور ماتحت سے زیا دتی نہیں کرے گا۔ اس طرح سب لوگوں کی زندگی سنور جا ئے گی ۔
غفلت اختیار نہ کریں
ایسے ہی لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:
( رِجَا لٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ) (النور:۳۷)
ایسے لوگ ہیں کہ جن کو اللہ کے یاد سے نہ خرید غفلت میں ڈالتی ہے اور نہ فروخت۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تجا رت بھی کرتے ہیں ،خریدو فروخت بھی کر تے ہیں، ما ل کا لین دین بھی کرتے ہیں لیکن یہ ساری چیزیں انہیں اللہ کی یا د سے غا فل نہیں کرتیں ۔یہ کیا ہے ؟ یہ اسبات کی نشانی ہے کہ دل میں ذکر نقش ہو چکا ہے۔
ارے میرے عزیزو! اللہ کے پیارے بندے تو با زاروں میں بیٹھ کر بھی اللہ کی یادسے غافل نہیں ہوتے تھے ،تجارت میں مشغول ہوکر بھی اللہ کے ذکرسے غافل نہیں ہوتے تھے اور ہم کتنے محروم ہیں کہ مسجدکی صفوں میں کھڑے ہوکر بھی ہمیں اللہ یاد نہیں آتا،نماز پڑھتے ہوئے بھی اللہ سے غافل ہیں ،اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر بھی با زار کو سوچتے ہیں ۔ہمارے اور ان کے درمیان فرق کی وجہ ہی یہی ہے کہ انہوں نے اپنے دلوں پر محنت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کو اپنے دل میں بٹھالیاتھا اور ہم نے محنت ہی نہیں کی ،اللہ کو حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔
ذکر کا اہتمام کریں
میرے دوستو !اگر ہم واقعی چا ہتے ہیں کہ غذائیت اورتوانائی حاصل ہو جو ہمیں اس سوسائٹی کے اندر چلا ئے ،معا شرے کے اندر چلا ئے، ہم حالات کامقابلہ کر سکیں، گنا ہو ں سے بچ سکیں، خواہشات کا راستہ روک سکیں تو پھر اس توانائی کوحاصل کرنے کے لئے اہتما م کر نا ہو گا ،ذکر میں دل لگانا ہوگاتا کہ معاشرے میں پائی جانے والی بیماریوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔
ذکر کے اثرات
میں نے آداب عرض کر دئیے ہیں کہ ذکر کی مقدار بھی مقرر ہو اور کیفیت کے ساتھ بھی کیا جائے ،اب کسی اللہ والے سے پوچھ لیں کہ میرے لئے کتناذکر منا سب ہے؟ پھر جو مقدار وہ تجویز کردیں اس کا اہتما م شروع کردیں، مقدار بھی پوری کریں اور کیفیت بھی پیدا کریں ،پھر دیکھیں کہ یہ کیا رنگ لا تا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی اہتمام بھی کرے اور پھر بھی اس کے اثرات ظاہر نہ ہوں اس لئے کہ اگر کوئی شخص کسی سے دو جملے غصے کے کہہ دے تو سامنے والے کا چہرہ تبدیل ہو جا تا ہے ، رنگ سرخ ہو جاتا ہے ، انسان کے دو جملو ں میں تواتنی تا ثیر ہو لیکن اللہ کے نا م میں تا ثیرہی نہ ہو ، ایسا نہیں ہو سکتا،یہ نا ممکن ہے۔ اللہ کے نام میں بہت تا ثیر ہے لیکن اس کے آداب کے ساتھ اسے حاصل کیا جا سکتا ہے،اس کی عظمت کے ساتھ اسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اس لئے میرے عزیزو! اپنے اوقات میں سے کچھ وقت اللہ کی یاد کے لئے بھی نکالیں،ما ں بہن اور بیٹیاں بھی اس کام کے لئے فراغت کے کچھ لمحات نکالیں ۔ دن اور رات میں کچھ اوقات مقرر کر لیں جن میں اپنے اللہ کو اس انداز سے یا دکیا کریں۔ اللہ کی قسم !زندگی کا رخ ہی بدل جا ئے گا ،ترتیب ہی بدل جا ئے گی اوراسے ہم خود محسوس کریں گے۔
اللہ کا وعدہ سچاہے
اللہ کا وعدہ ہے کہ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اس لئے میرے دوستو ! اگرہم اللہ کو یا د کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں یا د کریں گے، ہم اللہ کا لحاظ کریں گے تواللہ تعالیٰ ہما را لحاظ کریں گے، ہم اللہ کے دین کی حفا ظت کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہما ری حفاظت کریں گے، ہم اللہ کا خیا ل کریں گے تواللہ تعالیٰ ہما را بھی خیا ل کریں گے۔
فرشتوں کی سفارش
آپ ا کا ارشاد مبارک ہے :
’’جب بندہ فروانی میں ،خوشحالی میں ،صحت میں،فراغت میں اپنے اللہ کو یا د کر تا رہتاہے، پھر اگر وہ کسی وقت بیما ر ہو جا ئے،کسی پریشانی کا شکار ہوجائے یا کوئی مصیبت اس پر آجائے اور وہ اپنے اللہ کو پکا رے تو اللہ کے فرشتے اس کے لئے سفارش کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے اللہ! اس کی آواز بڑی ما نو س ہے پہلے بھی آتی رہی ہے، اس کی فریا دکو قبول فرما لیجئے اور جب بندہ آسائش وآرائش میں نعمتو ں کی فراوانی میں اللہ کو فرامو ش کردیتا ہے اورپھر مصیبت کی گھڑی میں جب پکا رتا ہے تو اللہ کے فرشتے کہتے ہیں اے اللہ! یہ نا ما نوس آواز ہے پہلے کبھی سنائی نہیں دی ، پھراسے دھتکا ر دیا جاتا ہے۔‘‘
کچھ وقت ضرور مقرر کریں
اللہ تعالیٰ کی ہم پر انتہائی کرم نوازی ہے ،بے حساب نوازشات ہیں کہ ہم اپنی گندی زبا نو ں سے اللہ کو یا دکرتے ہیں اور اللہ اس کی بھی لاج رکھ لیتا ہے ۔ہم اپنے سیاہ دل سے اللہ کو یا دکرتے ہیں اوراللہ اس کی بھی لاج رکھ لیتا ہے ۔ اپنی گنا ہ بھری زندگی کے اندر بھی اگر کسی وقت اللہ کو یاد کرتے ہیں تووہ اس کی بھی لاج رکھ لیتا ہے۔ اس لئے میرے دوستو !دن رات میں کچھ اوقات ایسے ضرور مقرر کرلیں جن میں اپنے مولیٰ کو یاد کرسکیں ،کچھ وقت صبح میں اور کچھ وقت شام میں ایسا مقرر کرلیا جائے جس میں کوئی دنیاوی کام نہ کیا جائے ،صرف اللہ کا ذکر کیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے:
( وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً ) (الدھر:۲۵)
اور اپنے پروردگار کا نام صبح شام لیا کیجئے ۔
اللہ کا ذکر کر کے کچھ صبح اور کچھ شام کی توانائی حاصل کر لی جائے، صبح والی توانائی شام تک کا فی رہے گی اور شام والی صبح تک کافی رہے گی۔
ہم اس ما دی جسم کے لئے نہ جا نے کتنی غذائیں کھا تے ہیں۔ صبح کا نا شتہ، دوپہر کاکھا نا ،شام کی چا ئے ، رات کا کھا نا۔میرے دوستو! اس روحا نی زندگی کے لئے بھی کچھ غذاکی ضرورت ہے ،اسے بھی توانائی کی ضرورت ہے اگر اسے اس کی غذا پوری پوری اوروقت پر دیں گے تو اس کی وجہ سے ظاہری جسم بھی سکون پائے گا ۔
دلوں کا اطمینان
اللہ کی یا دسے دلو ں کو اطمینا ن ملا کر تا ہے ۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
( اَ لَابِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوبُ ) (الرعد:۲۸)
خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے ۔
اگر کو ئی کہے کہ ارے میرا دل تو مطمئن نہیں ہو تا میں تو بہت تسبیحات کرتا ہوں ،تو میاں آپ اُس کمیت کے ساتھ نہیں کرتے،اُس کیفیت کے ساتھ نہیں کرتے۔اللہ کی با ت توسچی ہے۔اس بات کو مان لیں کہ میں جس طریقے سے اس نسخے کو استعمال کر رہا ہوں اس میں ضرور کچھ کوتا ہی ہے ، میرے اندر کچھ بدپرہیزیا ں ہیں جس کی وجہ سے نسخہ صحیح کا م نہیں دکھا رہا ،اپنے شاندار نتا ئج نہیں دے رہا ورنہ اللہ کی بات تو سچی ہے کہ ذکر سے دلوں کو اطمینا ن ملا کر تا ہے، بے چینیا ں ختم ہوتی ہیں ۔
اب اگر کسی کو نیند نہیں آتی ،کوئی انجا نا سا خوف پریشان کئے ہو ئے ہے تو کتنا بہترین نسخہ ہے کہ تنہائیوں میں اللہ کو یاد کرنے کی عادت بنالیں اللہ آپ کوہر قسم کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات دے دے گا ،دل کو مطمئن کر دے گا۔
اس لئے میرے عزیزو !ہم سب اس بات کی کوشش کریں کہ ہمارا دن اور رات کاکچھ حصہ ایسا ہو کہ جس میں ہم تمام دنیا کے کاموں سے فارغ ہو کر اپنے اللہ کو یاد کریں۔
اللہ مجھے بھی اور آپ کو بھی کہنے سننے سے زیا دہ عمل کی توفیق نصیب فرما ئے ۔
آمین
وَاٰخِرُدَ عْوَانَااَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
مولانا عبد الستار صا حؓ خطئب مسجد بیت السلام،مرکز فہم دین