[contact-form-7 id=”6dd82e5″ title=”front-pag-right”]

Hatib ibn-e-Balta ka Ajeeb Qissa Aur Allah ki Muafi

 

Hatib ibn-e-Balta ka Ajeeb Qissa Aur Allah ki Muafi 
سن ۸ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کا عزمِ صمیم کرلیا، تیاری کے دوران اس امر کا خصوصی انتظام کیا گیا کہ اہل مکہ کو اس تیاری اور لشکر کی روانگی کی خبر نہ ہوسکے، لیکن ایک بدری صحابی حاطب ابن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ پر اپنے خاندان والوں کے بارے میں اندیشے غالب آگئے، انھوں نے اہل مکہ کے نام ایک خط لکھا جس میں انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے مطلع کیاگیا، انھوں نے لکھا ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر حملہ کرنے کے لیے متوجہ ہوئے ہیں میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تنہا بھی تم پر چڑھائی کرتے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی مدد فرماتا اور اپنے وعدے کو پورا کرتا، بے شک اللہ تعالیٰ ہی اپنے نبی کا مددگار اور دوست ہے۔“ انھوں نے ایک عورت کی خدمات حاصل کیں، اس نے خط کو اپنی مینڈھیوں میں چھپالیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب کو مطلع فرمادیا۔ آپ نے حضرت علی، زبیر بن عوام اور مقداد بن اسود رضی اللہ عنہم اجمعین کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ فوراً روانہ ہوجاﺅ، جب تم ”روضہ خاخ “کے مقام پر پہنچو گے تو تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی، اس کی تلاشی لینا، اس سے ایک خط برآمد ہوگا وہ لے آﺅ۔ یہ حضرات بجلی کی سرعت سے روانہ ہوئے اور اس عورت کو جالیا، اسے اونٹ سے اتارا، اس کے سامان کی تلاشی لی لیکن خط نہ ملا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا: ”خدا کی قسم! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز غلط بیانی نہیں کی ، تمہارے پاس یقینا وہ خط ہے، بہتر ہے کہ وہ خط ہمارے حوالے کردو کہیں ہمیں کوئی ناگوار طریقہ اختیار نہ کرنا پڑے“ عورت نے وہ خط آپ کے حوالے کردیا۔ وہ خط حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے حاطب کو طلب فرمایا، انھوں نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بخدا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا پختہ ایمان ہے، میں ہرگز مرتد نہیں ہوا، میرا مکہ میں کوئی قریبی رشتہ دار نہ تھا جو ان حالات میں میرے اہل وعیال کی خبرگیر ی کرتا، میں نے یہ خط لکھ کر ان پر ایک احسان کیا ہے تاکہ وہ اس احسان کے بدلے میرے اہل وعیال کا خیال رکھیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا:حاطب نے تمہیں سچی بات بتادی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا: اللہ تجھے ہلاک کرے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے راستوں پر پہرہ دار مقرر کردیے تھے، تاکہ اہل مکہ کو ان تیاریوں کے بارے میں کوئی خبر نہ ملے اور تم انھیں خط لکھ کر اطلاع دے رہے ہو۔پھر انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاطب بدری ہے اور اللہ نے اہل بدر کے تمام گناہ معاف کردیے ہیں، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور انھوں نے عرض کیا اللّٰہُ وَرَسُولُہُ اَعلَمُ۔ اللہ اکبر! اگر حاطب کی غلطی معاف ہوسکتی ہے تو کوئی خطا کار ایسا نہیں جسے معاف نہ کیا جاسکے۔

٭ حوریہ ذیشان ٭


Posted

in

by